لفظ مستشرق کی جمع مستشرقین
ہے، مستشرق کے لغوی معنی ہیں وہ فرنگی جو مشرقی
زبانوں اور علوم کاماہر ہو، مستشرقین کے وضاحتی معنی یہ ہیں
کہ مغرب (مراد یورپی ممالک) کے جو لوگ علوم اسلامیہ کو مسخ
کرنے، اسلامی تعلیمات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے، اسلام
کی تشکیل جدید اور قرآن و حدیث و فقہ کی نئی
ترتیب و تہذیب کے نعرے لگانے اور امت مسلمہ میں انتشار و افتراق
پیدا کرنے کی غرض سے اسلامی علوم و فنون اور تاریخ اسلام
کی تعلیم و مطالعہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں۔
ان لوگوں میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں، ان
کو مستشرقین کہا جاتا ہے استشراق کی تاریخ بہت پرانی
ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں عیسائی
دنیا صلیبی جنگوں میں ناکام ہوئی تو تحریک
استشراق شروع کی گئی جس کے بیک وقت دو نشانہ تھے۔ اس کا
اولین مقصد یہ تھا کہ اسلام کی غلط تصویر پیش کرنا
اور مذہب عیسوی کی برتری ظاہر کرنا اور دوسرا مقصد اہل
مغرب کو مشرق میں اقتدار کی راہ پیدا کرنا تھا۔ چنانچہ اس
سلسلہ میں عیسائی پادری اور یہودی علماء
اسلامیات کے مطالعہ کے لئے وقف کئے گئے۔ خفیہ مقامات پر تعلیم
گاہوں کانظم کیاگیا جہاں قرآن، حدیث، فقہ، کلام، تاریخ
اور دیگر متعلقات علوم کا درس دیا جانے لگا لیکن تشریح و
تفہیم اس طرح ہوتی کہ مسیحی مغرب کے افکار و اقدار کی
عظمت سامنے آتی اور اسلام کے دینی افکار اور اقدار کی کوئی
وقعت اور قیمت نہ ہوتی اور یہ ذہن نشین کرایاجاتا
کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس قسم کی
تعلیم گاہوں کے فارغین کے ذریعہ ملک مصر میں ”فرعونی“
اور ملک عراق میں ”آشوری“ شمالی افریقہ میں ”بربری“
فلسطین ولبنان کے ساحل پر ”ہٹی“ تہذیب و زبان کی احیاء
کی تحریکیں شروع ہوئیں، انکے مستقل داعی پیدا
کئے گئے، انھوں نے اسلامی تہذیب اور عربی زبان کو نقصان پہنچانے
کے لئے شدومد کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی فصیح
عربی زبان موجودہ زمانہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی
اس کے بجائے عوامی اور مقامی زبانوں کو رواج دیا جائے اور ان ہی
کو اخبارات اور کتابوں کی زبان بنادیا جائے۔ مستشرقین کے
چیلے مشرقی ممالک میں آئے تو اپنے آپ کو روشن خیال، تجدد
پسند، مصلح دین، محقق، مفکر ظاہر کیااور اپنے باطل طریقہ کار کو
سائنٹفک اور سسٹمیٹک بتایا اس کے بالمقابل علماء حقانی، سلف
صالحین اور مصلحین و مجددین کے طریقے کو دقیانوسی
اور نامعقول بتایا، اس سے بھی آگے بڑھ کر مستشرقین نے یورپ
و امریکہ اور کناڈا میں قائم کردہ اسلام کی تحقیق کے نام
نہاد تعلیمی اداروں کے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دئیے۔
اور بڑے بڑے وظیفے دے کر مسلمانوں کے ذہین اور تعلیم یافتہ
طبقہ کو اپنی طرف کھینچا اور اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔
ان میں سے بعض مستشرقین کا آلہ کار بنے۔ یہ ادارے گاہ
بگاہ سیمناریں اور مجالس مذاکرات منعقد کرتے رہتے ہیں ان میں
اسلامی عقائد اوراسلامی تہذیب پر تحقیر آمیز تنقید
کرتے ہیں اور علماء کرام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کا ایک جدید
نعرہ ”اجتہاد“ ہے اور اجتہاد کا حق ہر اس مسلمان کو حاصل ہے جو بقول ان کے قرآن کریم
کے ترجمے کو کسی بھی زبان میں پڑھ سکتا ہو، مستشرقین کا
کہنا ہے کہ مجتہدکو عربی زبان، صرف و نحو، لغت، قرآن و علم تفسیر، حدیث،
آثار صحابہ، علم فقہ، علم عقائد،اصول فقہ، ناسخ و منسوخ وغیرہ علوم کی
جاننے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ دیکھنے کی
ضرورت ہے کہ کسی کے اندر ان علوم کے جاننے کے باوجود نئے مسائل کے استنباط کی
صلاحیت بھی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص عربی
زبان اور دیگر علوم دینیہ حاصل کئے بغیر صرف ترجمہ قرآن کی
مدد سے آیات قرآنیہ میں اپنی رائے زنی کرسکتا ہے تو
وہ مجتہد ہوسکتا ہے اور فقہ اسلامی میں ٹانگ اڑاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں مستشرقین
نے قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، تاریخ اسلام پر پرفریب تنقید
کی تھی اس وقت کے علماء کرام نے ان کے مدلل جوابات دئیے تھے اور
ان کی غلطیوں سے عوام کو روشناس کرایا تھا اس اہم فریضہ
کو انجام دینے میں بالخصوص سیرت النبی … کے بارے میں
مولانا شبلی نعمانی لکھنوٴ کانام نمایاں ہے اور علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں نے بدنام
زمانہ ولیم میور کے سیرت نبوی پر کئے ہوئے اعتراضات کا
اپنے طور پر جواب دیا اور اس سلسلہ میں انھوں نے انگلستان کا دورہ کیا۔
سیرت پر ان کا یہ کام انگریزی اور اُردو زبانوں میں
شائع ہوچکا ہے اور پھر جب انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
میں شعبہ دینیات قائم کیا تو اس میں ان علماء ہی
کو رکھا جن کے علم و عزم پر اعتماد تھا۔ سرسید احمد خاں نے حضرت
مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند سے علی
گڑھ میں دینیات کے لئے معلم مانگا تو آپ نے وہاں اپنے داماد کو
بھیج دیا جو علی گڑھ میں دینیات کے پہلے ناظم
مقرر ہوئے تھے۔
مختصر یہ کہ آج جبکہ مستشرقین
علم و تحقیق کے نام پر ایسے نظریات اور اصطلاحات پیش کرتے
ہیں جن سے اسلامی تعلیمات کے خلاف ارتداد اور انحراف کی
فضا پیدا ہوجائے اور نئی نسل کا تعلیم یافتہ طبقہ عیسائیت
کے حلقہ بگوش ہوجائے تو موجود دور کے فکر اور فلسفے کو غلط ثابت کرنے کی سعی
ضروری ہے۔ اس وقت علمائے ہند کے کاندھوں پر کتنی ذمہ داری
ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی کا ارشاد ہے کہ اسلام وہ مذہب ہے کہ جس دن وہ دین بنا اسی
دن وہ سیاست بھی تھا۔ اس کا منبر،اس کا تخت، اس کی مسجد،
اس کی عدالت،اس کی توحید نمرودوں اور فرعونوں، قیصروں اور
کسراؤں کی شہنشاہی کے مٹانے کا پیغام تھی۔ صحابہ
اور خلفاء کی پوری زندگیاں ان مرقعوں سے بھری پڑی ہیں
اور وہی اسلام کی سچی تصویریں ہیں اور جب تک
علماء علماء رہے وہی ان کا اسوہ تھا ۔ آج ضرورت ہے کہ اسی نقش
قدم پر چلیں جو ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ آج علماء کا کام
صرف پڑھانا، مسئلے بتانا اور فتوے دینا سمجھا جاتا ہے، لیکن اب وقت ہے
کہ اپنے اسلاف کے وقت کو پھر دہرائیں اور دیکھیں کہ ان کا کام
صرف علم و نظر تک محدود نہیں بلکہ سعی و عمل اور عملی خدمت بھی
ان کے منصب کا اہم فرض ہے۔
آج کئی گوشوں سے یہ صدا
گونجنے لگی ہے کہ دور حاضر میں علماء کو چھوڑئیے ان سے رابطہ نہ
رکھئے ان کے بغیر راست ترجمہ قرآن کی مدد سے اسلامی تعلیمات
کو سمجھئے، آج نئے شارحین کی ضرورت ہے، یہ آواز مستشرقین
کی اور ان کے تربیت افراد کی آواز ہے، نئے ترجمہ، نئے شارحین
مغرب سے نکل رہے ہیں بقول مولانا تقی عثمانی آج امریکہ، کینیڈا
اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھی اسلامی
تعلیم ہورہی ہے۔ اسلام پڑھایا جارہا ہے وہاں پر بھی
حدیث فقہ اور تفسیر کی تعلیم کا انتظام ہے ان کے مقالات
اگر آپ پڑھیں تو ایسی ایسی کتابوں کے نام نظر آئیں
گے جن کا ہمارے سیدھے سادھے مولویوں کو بھی پتہ نہیں
ہوتا۔ بظاہر بڑی تحقیق کے ساتھ کام ہورہا ہے لیکن وہ دین
کی کیا تعلیم ہوئی جو انسان کو ایمان کی دولت
بھی عطا نہ کرسکے۔ صبح سے شام تک اسلامی علوم کے سمندر میں
غوطے لگانے کے باوجود ناکام ہی لوٹتے ہیں اوراس کے قطرہ سے حلق بھی
تر نہیں کرتے۔ مغرب کی ان تعلیم گاہوں میں کلیة
شرعیہ بھی ہے، کلیة اصول الدین بھی ہے لیکن
اس کا کوئی اثر زندگی میں نظر نہیں آتا۔ ان علوم کی
روح فناکردی گئی ہے۔ مستشرقین کے چیلنج کے مدنظر
علامہ سید سلیمان ندوی کے اس ارشاد گرامی
پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر آبادی جہاں علماء رہیں وہ ان کی
سعی اور خدمت سے آباد رہے۔ وہاں جاہلوں کو پڑھانا۔ نادانوں کو
سمجھانا، غریبوں کی مدد کرنا مسلمانوں کو ان کی کمزوریوں
سے آگاہ کرنا ایک عالم دین کا فرض ہے۔ ہمارا تاثر اور تجزیہ
ہے کہ مغرب نے ذہنی علمی جنگ کا چیلنج پیش کیا ہے
اس کے لئے ہم کو اس شعور اور آگاہی سے کام لینا پڑے گا جس کے لئے تاریخ
کے صفحات پر ہماری شناخت بنی تھی۔ آج ذہنی علمی
جنگ بغیر مکمل تیاری کے نہیں لڑی جاسکتی۔
ہمارا مشورہ ہے کہ آج کے اس میڈیا دور میں مسلم ممالک کا اپنا
علیحدہ میڈیا ہونا چاہئے جس کے ذریعہ ہم دشمنان اسلام کے
سامنے دین کی صحیح شکل پیش کرسکیں، ہندوستان کے اہل
ثروت بھی اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں۔ جو قومیں
اپنے زور بازو کے بجائے غیروں کی طاقت پر انحصار کرتی ہیں
انھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔
(ماخوذ از المستشرقون والاسلام واصلاحی
خطبات)
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:
90 ،جمادی الثانی 1427 ہجری مطابق جولائی2006ء